شوبز انڈسٹری، یعنی فلم، ٹی وی، موسیقی، اور ڈیجیٹل میڈیا کا میدان، آج کے جدید معاشروں کا ایک طاقتور ستون بن چکی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ ہمارے سماجی اقدار، سیاسی خیالات، اور معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم پاکستان، ترکی، ہندوستان، اور امریکہ جیسی بڑی شوبز انڈسٹریز کی کہانی سنیں گے، ان کے کلچرل اثرات کو سمجھیں گے، اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا جائزہ لیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی جانیں گے کہ عالمی مفکرین اور سکالرز ان صنعتوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے۔
پاکستان: روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج
پاکستان کی شوبز انڈسٹری کا سفر ایک دلچسپ داستان ہے، جہاں قدیم روایات اور جدید خیالات کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ 2010 کے بعد پاکستانی سینما نے ایک نئی جان پائی۔ فلم “خدا کے لیے” (2007) نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی فلمی صنعت کو ایک نئی پہچان دی۔ اس کے بعد “بول” (2011) اور “پنجاب نہیں جاونگی” (2017) جیسی فلموں نے عوام کی دلچسپی کو دوبارہ جگایا۔
ٹی وی ڈرامے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ “ہم سفر”، “زندگی گلزار ہے”، اور “ایک تھی رانیہ” جیسے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور مشرق وسطیٰ میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔ ان ڈراموں میں خاندانی اقدار، عورت کی خودمختاری، اور سماجی ناانصافی جیسے موضوعات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔
موسیقی کے میدان میں کوک سٹوڈیو اور “ساز” جیسے پروگراموں نے صوفی کلام کو جدید پاپ کے ساتھ جوڑ کر عالمی سطح پر پاکستانی موسیقی کو مقبول کیا۔ یہ پروگرام نہ صرف موسیقی کے دلدادہ افراد کو محظوظ کرتے ہیں بلکہ ثقافت کا ایک پل بھی قائم کرتے ہیں۔
ثقافتی اثرات اور اسلامی نقطہ نظر
پاکستانی شوبز انڈسٹری نے اپنے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے خاندانی روایات اور سماجی مسائل کو اجاگر کیا ہے، لیکن کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ بھارتی ڈراموں کی نقل نے “میلوڈراما کلچر” کو فروغ دیا ہے جو بعض اوقات حقیقت سے دور ہوتا ہے۔
اسلامی علماء جیسے ڈاکٹر عصمت بخاری کا کہنا ہے کہ وہ تمام فلمیں اور ڈرامے جو شراب نوشی، فحشیت، یا غیر اسلامی رسم و رواج کو فروغ نہیں دیتیں، جائز اور قابل قبول ہیں۔ تاہم، کئی مذہبی رہنما میوزک شوز اور مخلوط محفلوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیتے ہیں، اور عوام سے ان سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔
ترکی: ثقافتی سفارت کاری کی نئی مثال
ترکی کی شوبز انڈسٹری نے عالمی سطح پر اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ ترک ڈرامے جیسے “دیریلیش ارطغرل”، “میرا سلطان”، اور “قورولوش عثمان” نے 150 سے زائد ممالک میں ترکی کی نرم طاقت (Soft Power) کو مضبوط کیا ہے۔ ترکی کی میڈیا ایکسپورٹ 2023 میں 650 ملین ڈالر تک پہنچ گئی، جو اس کی عالمی مقبولیت کا ثبوت ہے۔
فلمی دنیا میں نوری بیلگے جیلان کی “وائنٹر سلیپ” نے کانز فیسٹیول میں گولڈن پالم ایوارڈ جیت کر ترکی کی فلمی صنعت کو عالمی شہرت دی۔
ثقافتی اثرات اور اسلامی تناظر
ترکی کے یہ ڈرامے اسلامی تاریخ، سلطنت عثمانیہ کی عظمت، اور خاندانی اتحاد کو فروغ دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ان ڈراموں نے ترکی کی ثقافتی یلغار کو جنم دیا ہے، جس سے ترک ثقافت اور اسلامی ورثے کی عالمی سطح پر پذیرائی بڑھ رہی ہے۔
تاہم، بعض اسلامی سکالرز جیسے شیخ یوسف القرضاوی نے تنقید کی ہے کہ یہ ڈرامے اسلامی اقدار کو رومانوی انداز میں پیش کرتے ہیں، جو حقیقت سے کچھ حد تک ہٹ کر ہے۔
ہندوستان (بالی وُڈ): ثقافتی طاقت اور تنازعات کا مرکز
ہندوستان کی بالی وُڈ انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک ہے، جو سالانہ تقریباً 2,000 فلمیں بناتی ہے اور 2.5 بلین ڈالر کا کاروبار کرتی ہے۔ بالی وُڈ کی فلمیں جیسے “دنگل” (2016) اور “بھاجی راؤ مستانی” (2015) نے ہالی ووڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ثقافتی اثرات
بالی وُڈ کی مثبت پہلوؤں میں شامل ہے کہ اس نے “3 ایڈیٹس” جیسی فلموں کے ذریعے تعلیمی نظام کی اصلاحات کو فروغ دیا۔ لیکن منفی پہلو بھی کم نہیں، جیسے “آئٹم سانگز” اور جنسی تشدد کی نمائش، جو سماجی مسائل کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ ذات پات کی تفریق کو بھی بعض فلمیں نارملائز کرتی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر
مولانا محمد طیب قاسمی جیسے علماء کا کہنا ہے کہ بالی وُڈ کا 80 فیصد مواد اسلام کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں فحاشی اور غیر اسلامی رویے عام ہیں۔ تاہم، “زاپیاں” جیسی فلموں نے پردے اور اسلامی اقدار کی پاسداری کو فروغ دیا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔
امریکہ (ہالی ووڈ): ثقافتی سامراجیت اور عالمی اثر و رسوخ
ہالی ووڈ دنیا کی سب سے بڑی شوبز انڈسٹری ہے، جس کا سالانہ کاروبار 100 بلین ڈالر سے زائد ہے۔ ہالی ووڈ کی فلمیں جیسے “ایوینجرز”، “ٹائٹینک”، اور “آواتار” نے عالمی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
ثقافتی اثرات
ہالی ووڈ نے سائنسی تخیل کو فروغ دیا ہے (جیسے “انٹرسٹیلر”) اور سماجی انصاف جیسے موضوعات کو اجاگر کیا ہے (جیسے “بلیک پینتھر”)۔ لیکن اس کے منفی اثرات میں LGBTQ+ کی تشہیر، خاندانی نظام کی کمزوری، اور مادیت پرستی کا فروغ شامل ہے۔
اسلامی نقطہ نظر
امریکی مسلم سکالرز جیسے ڈاکٹر جیکسن شاہ کہتے ہیں کہ ہالی ووڈ اکثر مسلمانوں کو دہشت گرد یا پسماندہ دکھاتا ہے، جو ایک منفی تصویر ہے۔ تاہم، “سیزن آف مائیگریشن ٹو دی نارتھ” جیسی فلموں میں مسلم کرداروں کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر: تفریح کی حدود اور اصول
قرآن و حدیث کی روشنی میں تفریح کے حوالے سے چند اہم نکات:
“وہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، سو وہ لوٹتے نہیں” (سورہ البقرہ:18) — فحش مواد سے پرہیز۔
“اپنی آواز کو پست رکھو” (سورہ لقمان:19) — موسیقی میں اعتدال۔
فقہی احکامات کے مطابق:
احناف کے نزدیک وہ گانا جائز ہے جس میں شراب، عریانی، یا کفر کی بات نہ ہو۔
سلفی مکتب فکر میں تمام اقسام کی موسیقی حرام سمجھی جاتی ہے۔
معاصر علماء کی آراء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ٹی وی تب حرام ہے جب حرام کام دکھائے جائیں، جبکہ مفتی منیب الرحمٰن ڈراموں میں جھوٹے قصے اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہیں۔
عالمی مفکرین کی آراء
نوم چومسکی: “ہالی ووڈ امریکی سامراجیت کا ہتھیار ہے جو دنیا کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالتا ہے”۔
ایلن دی بوٹن: “بالی وُڈ اور ہالی ووڈ انسانوں کو خواب دکھا کر حقیقت سے دور کرتے ہیں”۔
پروفیسر طارق رمضان: “مسلم ممالک کو ترکی کی طرح اپنی ثقافتی طاقت استعمال کرنی چاہیے”۔
مستقبل کے امکانات اور چیلنجز
ٹیکنالوجی جیسے وی آر (Virtual Reality) اور میٹا ورس (Metaverse) فلموں اور شوبز میں اخلاقیات کے نئے سوالات کھڑے کریں گے۔ ترکی اور پاکستان کی اسلامی تھیمز والی فلمیں مغربی ثقافت کے مقابلے میں ابھر رہی ہیں، جو ثقافتی جنگ کی ایک نئی شکل ہے۔ مالیزیا اور انڈونیشیا میں “حلال فلمیں” بنانے کی تحریکیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جو اسلامی اقدار کے مطابق تفریح فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
نتیجہ
شوبز انڈسٹری ایک دو دھاری تلوار ہے — یہ معاشروں کو متحد بھی کر سکتی ہے اور تقسیم بھی۔ اسلامی اقدار کے تناظر میں ضروری ہے کہ تفریح کے ذرائع انسانیت کی بہتری، سچائی، اور اخلاقیات کو فروغ دیں۔ ترکی اور پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ اسلامی تھیمز پر مبنی میڈیا عالمی سطح پر مقبول ہو سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں شوبز انڈسٹری اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرے، تو یہ نہ صرف تفریح بلکہ تعلیم اور اصلاح کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔