نبی اکرم ﷺ بطور ماہر تعلیم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ماہر تعلیم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ماہر تعلیم

رسول رحمت ، نبی مکرم ، تاجدار مدینہ ،سرور قلب وسینہ ، احمد مجتبیٰ ، محمدمصطفیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ معلم انسانیت ہیں اور ہر دور کے معلمین کے لیے مکمل نمونہ اور مشعل راہ ہیں۔

تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسانوں کے اخلاق کو سنوارنا ہے اور اخلاق سنوارنے سے مراد عام فہم انداز میں یہ ہے کہ انسانوں کی عادات کو درست کرنا ،ان کو اچھی عادات اپنانے کی ترغیب دینا اور بری عادات سے دور رہنے کا عادی بنانا۔

تربیتِ اخلاق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نبی رحمت ﷺ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ

“‌إنما ‌بُعِثْتُ ‌لأتمم ‌مكارمَ ‌الأخلاقِ”(سلسلة الأحاديث الصحيحة:45)

کہ مجھے تو بھیجا ہی اس مقصد کے لیے ہے کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کر دوں۔

اچھے اخلاق کی تکمیل سے مراد یہی ہے کہ لوگوں کی عادات کی اصلاح کرنا اور ان کو مکمل طور پر ایک اچھے کردار کا حامل انسان بنانا جو معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں اور اللہ رب العزت کا حقیقی معنوں میں اطاعت گزار بندے ہوں۔

رسول عربی ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت اور آپ کے سچا نبی ہونے کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل آپ ﷺ کا “امی” ہونا ہے ۔امی کا مطلب سمجھنے کے لیے قرآن کریم کی یہ آیت کافی ہے :

وَمَا كُنتَ تَتْلُواْ مِن قَبْلِهِۦ مِن كِتَٰبٍۢ وَلَا تَخُطُّهُۥ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّٱرْتَابَ ٱلْمُبْطِلُونَ (سورۃ العنکبوت:48)

“اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتےتھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک وشبہ میں پڑتے

“.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كَانَ ‌نَبِيُّكُمْ ‌صَلَّى ‌اللَّهُ ‌عَلَيْهِ ‌وَسَلَّمَ ‌أُمِّيًّا ‌لَا ‌يَكْتُبُ ‌وَلَا ‌يَقْرَأُ ‌وَلَا ‌يَحْسُبُ(تفسیر قرطبی:7/298)

کہ نبی ﷺ امی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جو اوپر آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے کہ اگر آپ ﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو دین اسلام کے منکر یہی اعتراض کرتے کہ چونکہ آپ ﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں لہذا یہ کتاب انہوں نے خود لکھی ہے وغیرہ(اگرچہ امی ہونے کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے یہ اعتراض اٹھایا لیکن وہ کارگر اسی وجہ سے نہ ہوسکا کہ معاشرہ آپ ﷺ کوبحیثیت امی جانتا اور پہچانتا تھا) رسول عربی ﷺ کی یہ شان ہے کہ آپ ﷺ نے کسی بشر کے سامنے زانوے تلمذ طے نہیں کیا بلکہ آپ ﷺ کو تو اللہ رب العزت نے خود علوم ومعرفت کی خزانوں سے نوازاہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

وَأَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمۡ تَكُن تَعۡلَمُۚ وَكَانَ فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكَ عَظِيمٗا (سورۃ النساء: 113)

اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب وحکمت کا نزول کیا اور آپ کو وہ سکھایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ فضل ہے۔

کتاب وحکمت عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کا وظیفہ نبوی یہ مقرر کیا کہ آپ ﷺ یہ علوم ومعارف اور علم وحکمت کے موتی اپنے امتیوںمیں بانٹیں اور ان کو اس کی تعلیم دیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَقَدۡ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذۡ بَعَثَ فِيهِمۡ رَسُولٗا مِّنۡ أَنفُسِهِمۡ يَتۡلُواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبۡلُ لَفِي ضَلَٰلٖ مُّبِينٍ (سورۃ آل عمران:164)

بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

بقول شاعر:
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اوراک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

آپ ﷺ کا اصل وظیفہ لوگوں کو علم کی دولت سے آراستہ کرناتھا ۔ اس کے لیے آپ ﷺ نے آج سے ساڑھے چودہ صد سال قبل تعلیم وتربیت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے جس طرح انسانی نفسیات اور تدریسی طریقوں ومہارتوں کا استعمال کیا مہذب دنیا کا سارا ایجوکیشن سسٹم آج تک اسی کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔

مغربی دنیا نے سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے علوم وفنون کے فن پارے اور مایہ ناز کتب جس طرح اندلس سے اپنے علاقوں میں منتقل کیں ان کے تراجم کیے اور زیادہ تر علمی ذخیرہ بددیانتی کاثبوت دیتے ہونے اپنے نام سے شائع کر ڈالا اس سے ہر صاحب علم واقف ہے ۔

اسی طرح مغربی دنیا کا ایجوکیشن سسٹم اورتدریسی ٹریننگ کا سسٹم آج جن تدریسی طریقوں اور تدریسی مہارتوں کو اپنی ایجاد قراردیتا ہے وہ امام الانبیاء اور معلم ِاعظم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس دور میں استعمال کر ڈالے ہیں جب یورپ تہذیب وثقافت اور قلم وکاغذ کے تصورات سے بھی نابلد تھا۔

سب سے بنیادی چیز یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے تدریس کے لیے کسی ایک طریقہ تدریس کو ہی ذریعہ تدریس نہیں بنایا بلکہ انسانی نفسیات اور بات سمجھانے کے لیے ہر اس طریقہ تدریس کا استعمال کیا جو مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے موزوں ترین تھا۔

آپ ﷺ نے لیکچر میتھڈ کا استعمال فرمایا ،خطبہ حجۃ الوداع اور دیگر خطبات اس کی اعلی مثال ہیں۔

بحث و مباحثہ طریقہ کا استعمال فرمایا۔ خطبات کے علاوہ آپ ﷺ صحابہ کرام کی مجالس میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے جس میں تمام حاضرین محفل اپنی اپنی رائے اور نقطہ نظر سے باقیوں کو آگاہ فرماتے۔

سوال جواب کاطریقہ استعمال فرمایا۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں مشہور روایت ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «‌أَتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ؟» قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا۔۔۔۔۔الخ ۔

اسی طرح آپ ﷺ نے مشاہداتی طریقہ اپنایا،آپ ﷺ نے فرمایا:

صلوا کما رایتمونی اصلی

آپ ﷺ وضو ، نماز ،حج اور دیگر کام کرکے دکھائے ،صبر واستقامت کا مظاہرہ کر کے تعلیم دی۔

اگرتمثیلی طریقہ کار کی بات کی جائے تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ایک خشک ٹہنی پکڑی اور اسے ہلایا، یہاں تک کہ اس کے تمام پتے جَھڑ گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے سلمان! تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے: ایک مسلمان جب اچھی طرح وضو کرکے پانچ نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔

آج کل سٹوری ٹیلنگ میتھڈ یعنی کہانی / قصہ سنا کر تعلیم دینے کے بہت چرچے ہیں آپ ﷺ نے اس طریقہ کار کو بھی اپنے دور میں استعمال فرمایا ،بنی اسرائیل کے تین لوگ جو غار میں پھنس گئے اور اس طرح کے دیگر قصے سنا کر آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو علم سے بہرہ ور فرمایا۔ موثر طریقہ ہائے تدریس میں سے مسائل حل کرنے کا طریقہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ غزوہ احد کے وقت مسلمان آبادی پر کفارومشرکین کے حملے کا مسئلہ ہو یا غزوہ احزاب کے وقت دفاع کرنے اور خندق کھودنے کا معاملہ ہو آپ ﷺ اس طریقے کو زیر استعمال لاتے ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ نے تجزیاتی طریقہ وغیرہ کو ذریعہ تدریس بنایا۔آپ ﷺ نے پوچھا ذرا بتاو کہ اگر کسی بندے کے گھر کے سامنے سے نہر بہتی ہو اور وہ اس میں پانچ بار نہاتا ہوتو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی ؟ ۔۔۔۔۔۔۔الخ۔

اگر مختلف تکنیکس کی بات کی جائے تو آپ ﷺ نے ہر موثر تکنیک کو اپنایا ہے ۔

برین سٹارمنگ کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے آپﷺ نے سوال فرمایا کہ ذرا بتاو وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے سدابہار ہیں یعنی کبھی بھی نہیں گرتے؟ ۔۔۔۔۔اس سوال کے ذریعے سے صحابہ کرام کو سوچنے اور غور وخوض کرنے پر ابھارا۔

آئیسک بریکر کے طور پر آپﷺ کوئی دلچسپ بات یا مزاح فرمایا کرتے تھے جس کی کثیر امثلہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔

انسانی نفسیات کا اتنا لحاظ رکھتے تھے کہ آپ ﷺنے فرمایا : میں تمہیں روزانہ وعظ اس وجہ سے نہیں کرتا کہ کہیں تم اکتا نہ جاو۔

آپ ﷺ انفرادی اختلاف کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بات تین تین بار بھی دہراتے تھے تا کہ بھی اچھے طریقے سے سیکھ لیں۔

تدریج کے اصول کو مدنظر رکھتے تھے،آسانی اور سہولت کے اصول کو مدنظر رکھتے تھے۔

دوران تدریس باڈی لینگوئج کا موزوں اور موثر استعمال کرتے ۔

یتیم کی کفالت کی حدیث میں آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں یوں ساتھ ہوں گے (جیسے یہ دو انگلیاں قریب قریب ہیں)۔

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسانی جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک رہے تو سارا بدن ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے پھر آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے سامعین کے واضح فرمایا کہ تقویٰ کا مرکز دل ہے ۔

المختصر کہ آپ ﷺ گفتگو فرماتے ہوئے مناسب اشاروں اور جسمانی زبان کا موزوں استعمال فرماتے تھے ۔بات کو سمجھانے کے لیے میسر وسائل کا استعمال کرنا بھی آپ ﷺ کے تدریسی اصولوں میں سے ایک ہے آپﷺ کبھی زمین پر خط کھینچ کر بات سمجھاتے نظر آتے ہیں تو کبھی معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر کے اصول کو مدنظر رکھ کر پھلوں وغیرہ سے مومن ومنافق کی مثالیں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

الغرض

خاتم النبیین ﷺ کی سیرت وکردار کو جس بھی پہلو سے دیکھا جائے وہ ایک کامل ومکمل شخصیت کے طور پر سامنے آتےہیں آپ ﷺ ایک مایہ ناز اور کامیاب ترین استاد تھے جن کے طریقہ ہائے تدریس اور تدریسی تکنیکس وضوابط کو ہر دور میں اپنایا جاتا رہے گا ۔

جدید دور کے ماہرین تعلیم آج جن تدریسی طریقوں اور مہارتوں کی بات کر رہے ہیں اور جن طریقوں ومہارتوں کو جدید طریقہ ہائے تدریس کا نام دے رہے ہیں درحقیقت وہ ہمارے پیارے استاد اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے دیئے ہوئے طریقے ہیں۔

امت مسلمہ کو اپنے ہادی ورہنما پر فخر ہونا چاہیے اور بطور استاد آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنی تدریسی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کریں اور تدریسی عمل میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ ہائے تدریس کو استعمال کریں اورملک پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں یہ بات باور کروائیں کہ رسول عربی ﷺ کو ماننے والے ہی کامیاب مدرس اور موثر تدریسی صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔جس کمال شفقت ومہربانی اور انسانی نفسیات کا لحاظ رکھ کر آپ ﷺنے لوگوں کو تعلیم دی ہمارا بھی یہی فریضہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کے اسوہ کو اپنائیں اورکامیاب معلم بنیں۔اللہ رب العزت ہم سب کا حامی وناصرہو۔آمین۔

اپنا تبصرہ لکھیں