Fateh 1 and 2 missile

جانیے پاکستان کے فتح میزائل سیریز کے بارے میں جس سے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا گیا

پاکستان کا فتح میزائل: دفاعی تاریخ کا ا نیا باب

پاکستان نے 10 مئی 2025 کی صبح بھارت کی جارحیت کے جواب میں “آپریشن بنیان مرصوص” کا آغاز کیا، جس میں فتح میزائل سیریز کو فیصلہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ میزائل نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کی بھی غماز ہیں۔ اس مضمون میں ہم فتح میزائل کی تکنیکی تفصیلات، آپریشن میں اس کا کردار، اور خطے میں اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

فتح میزائل کا تکنیکی جائزہ

فتح-1: مختصر رینج کی تیز رفتار کارروائی
فتح-1 میزائل زمین سے زمین پر حملہ کرنے والا ایک شارٹ رینج بیلسٹک میزائل (SRBM) ہے، جو 150 کلومیٹر تک کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل اپنے ہلکے وزن (787 کلوگرام) اور کم قطر (368 ملی میٹر) کی بدولت تیزی سے تعیناتی کے قابل ہے۔ اس کی رفتار ماخ 3 (3,700 کلومیٹر فی گھنٹہ) تک ہے، جو اسے دشمن کے دفاعی نظام سے بچنے کے لیے موثر بناتی ہے۔ فتح-1 کی خاصیت اس کی سیٹلائٹ گائیڈنس سسٹم ہے، جو اسے 30 میٹر سے کم کی غلطی کے ساتھ نشانے تک پہنچاتی ہے۔

فتح-2: 400 کلومیٹر تک کی مہلک پہنچ
فتح-2 میزائل، فتح سیریز کا جدید ترین ورژن، 400 کلومیٹر تک کے فاصلے پر موجود اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ 7.5 میٹر لمبا میزائل 365 کلوگرام کا روایتی یا جوہری وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی فلیٹ فلائیٹ ٹریجیکٹری اور مڈ فلائٹ کوریکشن کی صلاحیت اسے بھارتی S-400 جیسے جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز کے لیے بھی مشکل شکار بناتی ہے۔ فتح-2 کی سرکلر ایرر پروبیبل (CEP) 10 میٹر سے کم ہے، جو اسے دنیا کے دقیق ترین میزائلز میں شامل کرتی ہے۔

آپریشن بنیان مرصوص میں فتح میزائل کا کردار

اذانِ فجر کے ساتھ فیصلہ کن حملہ
10 مئی کی صبح 5:53 بجے، پاکستان نے بھارت کے نور خان ایئر بیس (راولپنڈی)، رفیقی ایئر بیس (شورکوٹ)، اور مرید ایئر بیس (چکوال) سمیت کلیدی فوجی اہداف کو فتح میزائلز سے نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا مقصد بھارت کی فضائیہ کی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچانا تھا، جس میں رافیل لڑاکا طیاروں کے ہینگرز اور براہموس میزائل ڈپو شامل تھے۔

بھارتی دفاعی نظام کو چیلنج
بھارت نے سرسا (ہریانہ) میں فتح-2 میزائل کو روکنے کا دعویٰ کیا، لیکن پاکستان کی جانب سے جاری ویڈیوز کے مطابق، کم از کم 5 لڑاکا طیارے اور 2 ڈرونز تباہ ہوئے۔ فتح میزائلز کی ماخ 4 تک کی رفتار اور ان کی مینورنگ کی صلاحیت نے بھارتی ڈیفنس سسٹمز کو بے اثر کر دیا۔

فتح میزائل اور بھارتی ہتھیاروں کا تقابلی جائزہ

پاکستان کی تکنیکی برتری
رینج: فتح-2 کی 400 کلومیٹر رینج بھارت کے پرالے میزائل (150-500 کلومیٹر) کے برابر ہے، لیکن اس کی درستگی 10 میٹر CEP کے ساتھ بہتر ہے۔

رفتار: فتح-2 کی ماخ 4 رفتار بھارتی برہموس (ماخ 3) سے زیادہ ہے۔

حملہ کی حکمت عملی: فتح سیریز کے ملٹی پل لانچر سسٹمز ایک ہی ٹرک سے 6 میزائلز داغ سکتے ہیں، جو بھارت کے پناکا راکٹ سسٹم (75 کلومیٹر رینج) سے زیادہ موثر ہے۔

بھارت کی کمزوریاں
بھارتی فضائیہ کے پاس جدید S-400 ڈیفنس سسٹمز ہونے کے باوجود، فتح میزائلز کی لو پروفائل ٹریجیکٹری اور گھماؤ دار راستہ انہیں ڈیٹیکٹ ہونے سے بچاتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے شاہین-III جیسے میزائلز کے ساتھ مل کر ایک کثیرالایامی دفاعی نیٹ ورک تشکیل دیا ہے، جو بھارت کو کسی ایک محاذ پر مرتکز ہونے سے روکتا ہے۔

خطے پر فتح میزائل کے اثرات

تزویراتی توازن میں تبدیلی
فتح میزائلز نے پاکستان کو ٹیکٹیکل جوہری صلاحیت فراہم کی ہے، جس سے روایتی جنگ کے دوران جوہری تنازع کا خطرہ کم ہوا ہے۔ یہ میزائل معاشی اہداف (جیسے دہلی کے صنعتی زونز) کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو بھارت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

عالمی ردعمل
ایران اور ترکی نے فتح میزائلز میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کی تعریف کی ہے، جبکہ بھارت نے اقوام متحدہ میں پاکستان پر “علاقائی عدم استحکام” کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فتح-2 کی ہائپرسونک صلاحیتوں نے جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کو نئی جہت دی ہے۔

مستقبل کے امکانات
پاکستان فضائیہ کے ترجمان کے مطابق، فتح-3 میزائل پر کام جاری ہے، جو 600 کلومیٹر تک کی رینج اور ماخ 5 رفتار کے ساتھ آئے گا۔ یہ میزائل ہائپر گلائیڈ وارہیڈز سے لیس ہوگا، جو موجودہ دفاعی نظاموں کو بالکل ناکارہ بنا دے گا۔

نتیجہ
فتح میزائل سیریز نے پاکستان کو خطے میں دفاعی برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپریشن بنیان مرصوص میں اس کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان نہ صرف جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ انہیں حکمت عملی سے استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ آنے والے برسوں میں فتح میزائلز کی اپ گریڈز جنوبی ایشیا کے تزویراتی منظرنامے کو مزید تبدیل کر سکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں