Prof Sajid Mir

سینیٹر پروفیسر ساجد میر: تعارف، خدمات اور علمی و سیاسی ورثہ

سینیٹر پروفیسر ساجد میر: تعارف، خدمات اور علمی و سیاسی ورثہ
پروفیسر ساجد میر کی شخصیت پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تاریخ کے ایک اہم باب کی حیثیت رکھتی ہے۔ 3 مئی 2025ء کو 86 سال کی عمر میں انتقال کرنے والے اس عظیم رہنما نے اپنی زندگی کے 65 سال علمی، سیاسی اور سماجی خدمات کے لیے وقف کر دیے۔ سیالکوٹ کے علمی گھرانے میں جنم لینے والے ساجد میر نے نہ صرف جمعیت اہل حدیث پاکستان کو ایک مضبوط سیاسی قوت بنایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی تشہیر میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی وفات پر وزیر اعظم شہباز شریف نے انہیں “فراستمند سیاسی شخصیت اور اسلامی اسکالر” قرار دیتے ہوئے ان کے انتقال کو قومی سیاسی منظر نامے میں خلا سے تعبیر کیا۔

ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر
خاندانی روایات اور تعلیمی ماحول
2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ کے مضافاتی علاقے میں جنم لینے والے ساجد میر کی شخصیت پر ان کے خاندانی مذہبی ورثے کا گہرا اثر تھا۔ ان کے والد عبدالقیوم میر محکمہ تعلیم میں انسپکٹر اسکولز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے، جبکہ دادا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور معروف عالم دین تھے۔ یہ علمی ماحول ہی تھا جس نے ان کے اندر علم کے حصول کا شوق پیدا کیا۔ ابتدائی تعلیم پسرور میں حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیالکوٹ کے گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

تعلیمی سفر کے ابتدائی مراحل
1954ء سے 1958ء تک مرے کالج سیالکوٹ میں انہوں نے ایف اے اور بی اے (سیاسیات و عربی) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ یہاں انہوں نے نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ عربی اور انگریزی مضامین میں پہلی پوزیشن پر آنے پر انہیں میر حسن میڈل اور محمد علی میڈل سے نوازا گیا۔ ان کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1958ء میں بی اے کے دوران انہوں نے انگریزی اور عربی میں میرٹ اسکالرشپ حاصل کی۔

جامعاتی تعلیم اور علمی کمالات
جدید علوم میں مہارت
1960ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1969ء میں اسلامیات میں دوسرا ایم اے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ مکمل کیا۔ یہ دوہری مہارت ان کی شخصیت کے علمی تنوع کی عکاس تھی جس نے بعد ازاں انہیں مغربی اور اسلامی علوم کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے میں مدد دی۔ 1965ء اور 1966ء میں بالترتیب معاشیات اور نفسیات میں اضافی بی اے ڈگریوں نے ان کے علمی دائرے کو اور وسیع کیا۔

دینی تعلیم کا سفر
جدید علوم کے ساتھ ساتھ انہوں نے دینی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ 1971ء میں جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ سے درس نظامی کی تکمیل کی، جبکہ 1972ء میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور سے فاضل کی سند حاصل کی۔ انہوں نے وفاق المدارس السلفیہ سے عالمیہ کورس بھی مکمل کیا، جس نے انہیں مذہبی امور پر گفتگو کرنے کا ایک مضبوط علمی بنیاد فراہم کی۔

پیشہ ورانہ خدمات کا ارتقا
تعلیمی شعبے میں نمایاں کارکردگی
1960ء میں جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں انگریزی کے لیکچرار کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے ساجد میر نے 1963ء میں گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سیالکوٹ میں انسٹرکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1966ء سے 1975ء تک وہ سینئر انسٹرکٹر (انگلش اینڈ مینجمنٹ) کے عہدے پر فائز رہے، جہاں انہوں نے نہ صرف تدریس بلکہ انتظامی امور میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

بین الاقوامی سطح پر خدمات
1975ء سے 1984ء تک نائجیریا میں تعلیمی خدمات انجام دیتے ہوئے انہوں نے سینئر ایجوکیشن آفیسر سے لے کر اسسٹنٹ چیف ایجوکیشن آفیسر تک کے عہدے سنبھالے۔ افریقی ملک میں ان کی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، جہاں انہوں نے نہ صرف انگریزی بلکہ اسلامیات کی تدریس کو بھی اپنا ہدف بنایا۔

جماعتی اور سیاسی سفر کا آغاز
جمعیت اہل حدیث سے وابستگی
10 جون 1973ء کو جماعتی سیاست میں داخل ہونے والے ساجد میر کو پہلی بار ناظم اعلیٰ کا عہدہ سونپا گیا۔ 1987ء میں علامہ احسان الہی ظہیر کی شہادت کے بعد انہیں جماعت کا قائم مقام ناظم مقرر کیا گیا، جو ان کی سیاسی قیادت کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کی پہلی باضابطہ دستاویز تھی۔ 2 مئی 1992ء کو شوریٰ کے اجلاس میں انہیں باقاعدہ طور پر امیر جماعت منتخب کیا گیا، ایک ایسا عہدہ جو انہوں نے 33 سال تک سنبھالا۔

سینیٹ میں نمایاں کردار
1994ء میں پہلی بار سینیٹ کے رکن منتخب ہونے والے ساجد میر نے مسلسل چھ مرتبہ اس عہدے پر فائز رہ کر پاکستانی سیاست میں اپنا مقام بنایا۔ انہوں نے مذہبی امور، سائنس و ٹیکنالوجی، اور گلگت بلتستان کی قائمہ کمیٹیوں کی صدارت کرتے ہوئے قانون سازی کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ 2009ء سے 2015ء تک سینیٹ سٹینڈنگ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کی ترقی کے لیے قابل ذکر کام کیا۔

پیغام ٹی وی کا قیام اور عالمی اثرات
میڈیا انقلاب کا آغاز
2011ء میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس کی سرپرستی میں قائم ہونے والا پیغام ٹی وی ان کی سب سے بڑی عملی یادگار ہے۔ یہ غیر تجارتی فلاحی چینل نہ صرف پاکستان بلکہ 65 ممالک میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا ذریعہ بنا۔ ان کی رہنمائی میں یہ نیٹ ورک چار چینلز (اردو، پشتو، قرآن ٹی وی اور یوکے چینل) تک پھیل گیا۔ رمضان المبارک کے خصوصی پروگراموں نے اس چینل کو عوامی مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا، جہاں نصرت علی اور کامران زاہد جیسے معروف شخصیات نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔

علمی اور ادبی خدمات
تصانیف اور تحقیقی کام
ان کی تصنیفی خدمات میں “عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ” جیسی کتاب شامل ہے جو مذہبی تقابلی مطالعے کا اہم حوالہ ہے۔ صحیح مسلم کے ترجمے کی تصحیح اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب “ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين” کے ترجمے کی نظر ثانی نے انہیں اسلامی ادب میں ایک معتبر حیثیت دی۔ عربی سے انگریزی میں “الحزب المقبول” کے ترجمے نے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

اخباری کالم نگاری
ہفت روزہ “ترجمان الحدیث”، “اہل حدیث” اور “الاسلام” میں ان کے مضامین نے نہ صرف مذہبی بلکہ معاشرتی و سیاسی موضوعات پر عوامی رائے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مضامین میں اسلامی تاریخ، فقہی مسائل اور معاصر سیاسی چیلنجز پر گہری بصیرت نظر آتی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات اور عالمی کانفرنسز
عالمی اسلامی فورم پر شراکت
1985ء سے 2011ء تک برمنگھم میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی دعوت کانفرنسز میں مسلسل شرکت نے انہیں عالمی اسلامی تحریک کا اہم رکن بنا دیا۔ 1991ء میں ماسکو میں وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے منعقدہ اسلامی کانفرنس میں ان کی شراکت نے پاکستان کو سویت یونین کے بعد کے دور میں مرکزی اسلامی قوت کے طور پر متعارف کرانے میں مدد دی۔

رابطہ عالم اسلامی سے وابستگی
رابطہ عالم اسلامی کی ایگزیکٹو کونسل اور مجلس فقہ الاسلامی میں پاکستان کی واحد نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی اسلامی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ مکہ مکرمہ میں 2013ء اور 2011ء میں منعقدہ کانفرنسز میں ان کی شراکت نے پاکستانی نقطہ نظر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا۔

سیاسی اصولوں اور مواقف کی عکاسی
آمریت کے خلاف موقف
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کا تنہا ووٹ ڈالنا ان کی سیاسی جرأت اور اصول پسندی کی واضح مثال تھا۔ ایوان بالا میں ان کی تقاریر میں وسعت مطالعہ، قوت استدلال اور تجزیاتی صلاحیتوں کا عکس واضح نظر آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھائی، جسے وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کی خدمات کا “سنہری باب” قرار دیا۔

صحت کے مسائل اور آخری ایام
طویل عرصے تک دل کے عوارض میں مبتلا رہنے کے بعد 3 مئی 2025ء کو سیالکوٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ دل کا دورہ پڑنے سے ہونے والی موت سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی ریڑھ کی ہڈی کی سرجری ہوئی تھی، جس کے بعد سے وہ زیادہ تر بستر پر ہی محدود ہو گئے تھے۔ انہیں سیالکوٹ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں ان کے چاہنے والوں کا ایک بہت بڑا مجمع جمع ہوا۔

ورثہ اور اثرات
ان کی قیادت میں جمعیت اہل حدیث پاکستان نے نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی میدان میں بھی ایک فعال قوت کی حیثیت سے اپنا مقام بنایا۔ وکلاء، طلباء، نوجوانوں اور خواتین کے لیے مخصوص ذیلی تنظیمات کے ذریعے انہوں نے معاشرے کے تمام طبقات تک رسائی حاصل کی۔ پیغام ٹی وی کا عالمی نیٹ ورک ان کی سب سے بڑی عملی یادگار ہے جو ان کے انتقال کے بعد بھی اسلامی تعلیمات کی ترویج کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

ان کی وفات نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی اسلامی حلقوں میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔ ان کی علمی وسعت، سیاسی دور اندیشی اور مذہبی رواداری کا یہ امتزاج آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کا کام دے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں