کیا موجودہ سعودی شاہی خاندان کے آباو اجداد نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے کوئی کردار ادا کیا تھا ؟؟؟
اس میں نظریاتی تعصب کی وجہ سے کچھ چیزوں کو مکس کر دیا جاتا ہے۔
موجودہ سعودی حکمران خاندان کا تعلق نجد کے پسماندہ علاقے سے ہے جو خلافت عثمانیہ کے وقت گم نام تھا اور حکومت وغیرہ سے بھی دور تھا۔
خلافت عثمانیہ کے ہر علاقے میں امیر/گورنر تھے۔ اس حجاز کے علاقے میں آخری دنوں میں جو گورنر تھا اس کا بھی موجودہ سعودی شاہی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کو تاریخ میں ” شریف مکہ” کہا جاتا ہے۔
سلطنت کے زوال کا آغاز 1877 سے شروع ہوا جب روس اور ترکی کی جنگ کے بعد سربیا، رومانیا اور مونٹی نیگرو جیسے علاقے سلطنت سے آزاد ہو گئے۔
اور 1892ء میں یونان نے اپنی آزاد اور الگ حکومت کا اعلان کر دیا۔
اندرونی لڑائیاں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ سن 1909ء میں سلطان عبدالحمید ثانی کو باقاعدہ معزول کر کے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
اور جب خلافت عثمانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ مخالف بلاک کو جائن کیا، اس سارے بلاک کو شکست ہوئی اور سلطنت بھی یک لخت کمزور ہو گئی۔ کیونکہ برطانوی خفیہ مشن کی وجہ سے سلطنت کے اندر سے بغاوتیں شروع ہو چکی تھی۔
جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔
اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے
برطانیہ نے مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا۔ استنبول اور ازمیر پر قبضہ ترک قومی تحریک کے قیام کا سبب بنی اور مصطفٰی کمال پاشا کی زیر قیادت جنگ آزادی کے آغاز اور جمہوریہ ترکی کے قیام کے اعلان کیا گیا۔
مصطفٰی کمال کی زیر قیادت ترک قومی تحریک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں “قومی مجلس اعلیٰ” (ترکی زبان: بیوک ملت مجلسی) کے قیام کا اعلان کیا ، جس نے استنبول میں عثمانی حکومت اور ترکی میں بیرونی قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ترک انقلابیوں نے عوامی فوج کے ذریعے یونان، اٹلی اور فرانس کی افواج کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا۔
معاہدہ سیورے کے نتیجے میں جو علاقے جمہوریہ آرمینیا کو مل گئے تھے انھیں بھی دوبارہ حاصل کیا اور آبنائے پر قابض برطانوی افواج کے لیے خطرہ بن گئی۔ بالآخر ترک انقلابیوں نے آبنائے اور استنبول پر قبضہ کر لیا اور یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
آخری سلطان محمد ششم وحید الدین (1861ء تا 1926ء) 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے اور معاہدہ لوزان کے تحت 24 جولائی 1923ء کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔
جب مرکز کی یہ حالت تھی تو اطراف کے صوبوں اور دیگر علاقوں کے حکمرانوں نے بغاوت کر کے اپنی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کر لیں۔
یہ صرف عرب میں نہیں ہوا بلکہ تمام علاقوں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ہوا۔
ادھر “شریف مکہ” نے حجاز کے علاقے میں اپنی لوکل حکومت قائم کر لی۔
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ( سلطنت 1923ء میں باقاعدہ طور پر ختم ہو چکی تھی اور ترکی میں قومی حکومت بن چکی تھی) سردار عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے نجد کے علاقے سے شریف مکہ (جو خلافت عثمانیہ کا اپنا باغی حکمران تھا) کے خلاف بغاوت کی، دیگر عرب علاقے کے سرداروں کو ساتھ ملایا اور شریف مکہ کے خلاف لشکر کشی کر کے 23 ستمبر 1932ء کو اس سے حجاز کی حکومت چھین لی ۔
پھر یہ سردار اس علاقے کا پہلا حکمران بن گیا۔ اور اپنے بیٹے سعود بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کیا۔ سن 1932 سے 1953 تک شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے حکومت کی اس کے بعد 1953 میں شاہ سعود بن عبدالعزیز بادشاہ بنا اور اس نے داخلی اصلاحات سے مملکت کافی منظم اور مضبوط کیا۔
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا زوال 1875 سے شروع ہوا جس کے اصل ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ 1923 میں باقاعدہ خلافت ختم کر کے ترکیوں نے قومی حکومت بنا لی۔
موجودہ سعودی خاندان اس کے بعد 10 سال بعد 1932 میں حکومت سنبھالتا ہے تو اس نے خلافت کو کیسے ختم کر لیا؟؟ اہم سوال یہ ہے کہ خلافت صرف حجاز کے علاقے میں نہ تھی بلکہ حجاز تو ایک صوبہ تھا۔ خلافت عثمانیہ تو تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی تو ان علاقوں میں خلافت کیسے ختم ہوئی ؟