what is polygraph test

پولی گراف ٹیسٹ: جھوٹ کی سائنس اور تنازعات کی مکمل کہانی

پولی گراف ٹیسٹ، جسے عوامی طور پر “جھوٹ پکڑنے والا آلہ” کہا جاتا ہے، ایک ایسا طریقہ کار ہے جو انسانی جسمانی ردعمل کو ماپ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ کوئی فرد سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی کئی دہائیوں سے استعمال ہو رہی ہے، لیکن اس کی سائنسی درستگی، اخلاقیات، اور عدالتی حیثیت پر مسلسل بحث جاری ہے۔ اس مضمون میں ہم پولی گراف کے مکمل عمل، اس کی تاریخ، درستگی کے تنازعات، اور اس کے استعمال کی حدود کو تفصیل سے جانیں گے۔

پولی گراف کا سفر
پولی گراف کی بنیاد 1921 میں رکھی گئی جب جان لارسن نامی ایک پولیس افسر اور میڈیکل طالب علم نے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر، اور سانس کی شرح کو ایک ساتھ ریکارڈ کرنے والا آلہ تیار کیا۔ 1930 کی دہائی میں لیونارڈ کیسلر نے اس میں جلد کی برقی چالکتا (Galvanic Skin Response) کا سینسر شامل کر کے جدید پولی گراف کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی دور میں اسے مجرموں کے انٹرویوز میں استعمال کیا گیا، لیکن 1950 تک یہ نجی شعبے اور حکومتی ایجنسیوں میں بھی مقبول ہو گیا۔

پولی گراف کیسے کام کرتا ہے؟
پولی گراف مشین انسانی جسم میں غیر ارادی اعصابی نظام (Autonomic Nervous System) کی سرگرمی کو ماپتی ہے، جو کہ تناؤ یا دباؤ کی صورت میں متحرک ہوتا ہے۔ یہ مشین درج ذیل چار اہم جسمانی ردعمل کو ریکارڈ کرتی ہے:

دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر: جھوٹ بولتے وقت دل کی دھڑکن میں اچانک اضافہ ہو سکتا ہے۔

سانس کی شرح: سانس لینے کا انداز غیر مستقل ہو جاتا ہے (تیز یا گہری سانسیں)۔

پسینے کی مقدار: جلد کی برقی چالکتا (GSR) میں تبدیلی، جو کہ پسینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

عضلاتی حرکت: بازوؤں یا ٹانگوں میں غیر ارادی جھٹکے (کچھ جدید مشینیں اسے بھی ریکارڈ کرتی ہیں)۔

ٹیسٹ کا طریقہ کار: تین اہم مراحل
پولی گراف ٹیسٹ کا عمل تین بنیادی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے:

1. پری ٹیسٹ انٹرویو
ایگزامینر فرد سے تفصیلی بات چیت کرتا ہے، سوالات کی فہرست طے کرتا ہے، اور اسے مشین سے جوڑتا ہے۔ یہ مرحلہ سب سے اہم مانا جاتا ہے کیونکہ اس میں فرد کے رویے اور جذباتی حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

2. چارٹ کا تجزیہ
مشین سے منسلک سینسرز کے ذریعے جسمانی ردعمل کو گراف کی شکل میں ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر تین قسم کے سوالات پوچھے جاتے ہیں:

غیر متعلقہ سوالات: “آج موسم کیسا ہے؟” جیسے سوالات سے فرد کا بنیادی ردعمل معلوم کیا جاتا ہے۔

کنٹرول سوالات: یہ سوالات عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں جن پر سب ہی جھوٹ بولتے ہیں، مثلاً “کیا آپ نے کبھی کوئی چیز چرائی ہے؟”

متعلقہ سوالات: یہ وہ سوالات ہوتے ہیں جن پر تفتیش کی جا رہی ہوتی ہے، جیسے “کیا آپ نے یہ جرم کیا ہے؟”

ایگزامینر ان تینوں اقسام کے سوالات کے دوران جسمانی ردعمل کا موازنہ کرتا ہے۔

3. پوسٹ ٹیسٹ انٹرویو
ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر فرد سے مزید وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔

درستگی کا تنازعہ: کیا پولی گراف واقعی کارآمد ہے؟
پولی گراف کی درستگی پر سائنسی اور قانونی حلقوں میں شدید اختلافات ہیں:

حامیوں کے دلائل
امریکی پولی گراف ایسوسی ایشن کے مطابق تربیت یافتہ ایگزامینرز کے ہاتھوں اس کی درستگی 87% تک ہوتی ہے۔

یہ تفتیشی عمل کو تیز کرتا ہے اور ملزمان کو اقرار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

امریکہ کی سی آئی اے اور ایف بی آئی جیسی ایجنسیاں اسے ملازمین کی بھرتی میں استعمال کرتی ہیں۔

ناقدین کے اعتراضات
نیشنل ریسرچ کونسل کی 2003 کی رپورٹ کے مطابق پولی گراف جھوٹ کا پتہ لگانے سے زیادہ “ڈر کا پتہ لگانے والا آلہ” ہے۔

کچھ افراد قدرتی طور پر پریشان رہتے ہیں، جس سے غلط مثبت نتائج (False Positives) سامنے آتے ہیں۔

کاؤنٹر میژرز: تربیت یافتہ افراد مشین کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، روسی جاسوس الڈرچ ایمس نے پولی گراف کو یہ سوچ کر شکست دی کہ “پر سکون رہو اور امتحان دینے والے سے دوستانہ رویہ اپناؤ”۔

عدالتی حیثیت: کون قبول کرتا ہے؟
امریکہ: فوجی عدالتوں میں پولی گراف کے نتائج کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے (United States v. Scheffer, 1998)۔

بھارت اور پاکستان: عدالتیں اسے ثبوت کے طور پر قبول نہیں کرتیں، لیکن پولیس تفتیش میں استعمال کرتی ہیں۔

برطانیہ: صرف مخصوص حالات میں، جب دونوں فریق اسے قبول کریں۔

پولی گراف کے متبادل: مستقبل کی ٹیکنالوجیز
سائنسدان اب ایف ایم آر آئی (دماغی اسکیننگ) اور آئی ٹریکنگ (آنکھوں کی حرکات) جیسی ٹیکنالوجیز پر کام کر رہے ہیں، جو شاید مستقبل میں پولی گراف سے زیادہ درست ثابت ہوں۔

نتیجہ: ایک مفید آلہ یا سائنسی دھوکہ؟
پولی گراف ٹیسٹ کو مکمل طور پر نہ تو مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی حتمی سچائی کا ذریعہ مانا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کا کامیاب استعمال ایگزامینر کی مہارت، فرد کی نفسیاتی حالت، اور سوالات کی نوعیت پر منحصر ہے۔ تاہم، اسے انسانی رویوں کی پیچیدگی کو سمجھنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، نہ کہ حتمی فیصلہ کن ذریعہ۔

اس ٹیکنالوجی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ اس پر بھروسہ کریں گے؟ اپنی رائے کمنٹس میں شیئر کریں!

#پولی_گراف #سائنس_اور_ٹیکنالوجی #تفتیشی_آلہ

اپنا تبصرہ لکھیں