لاہور، 24 مئی 2025: وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26ء کا بجٹ پیش کرنے کی تاریخ 2 جون سے بدل کر 10 جون کر دی ہے۔
یہ فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات، وزیراعظم شہباز شریف کے چار ملکی دورے، اور ایڈ الاضحیٰ کی چھٹیوں کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق، “پاکستان اکنامک سروے 2024-25ء” 9 جون کو جاری کیا جائے گا، جبکہ بجٹ پیشکش کے لیے قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس 10 جون کو بلایا جائے گا۔
تاخیر کی وجوہات
آئی ایم ایف سے تعطل زدہ مذاکرات: وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین رشید لنگڑیال نے تصدیق کی کہ ٹیکس ہدف، پیٹرولیم لیوی میں اضافے، اور سرکلر قرضہ کے حل پر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے ۔
وزیراعظم کا چار ملکی دورہ: شہباز شریف 25 مئی سے ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور چین کا دورہ کریں گے، جس کے باعث بجٹ اجلاس کی تیاریوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ۔
ایڈ الاضحیٰ کی چھٹیاں: 7 جون کو متوقع ایڈ کی چھٹیوں کے باعث اراکین پارلیمنٹ کے لیے 2 جون کو اجلاس میں شمولیت مشکل تھی ۔
بجٹ 2025-26ء کے اہم نکات
1. ٹیکس پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں
نئے ٹیکسز: خوردہ فروشوں اور تھوک فروشوں پر آمدنی کا ٹیکس، پیٹرولیم مصنوعات پر 3% جی ایس ٹی، اور فاٹا/پاٹا کے ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سمیت 869 ارب روپے کے نئے ٹیکس متعارف کرائے جائیں گے ۔
ٹیکس ریلیف: تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح میں 2.5% کمی، جبکہ سپر ٹیکس کی شرح بھی کم کی جائے گی ۔
قومی مالیاتی معاہدہ: صوبوں کو زیادہ مالی اختیارات دیتے ہوئے وفاقی اخراجات میں کمی ۔
2. ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
گریڈ 1-16: تنخواہوں میں 25% اضافے کا امکان ۔
گریڈ 17-22: 20% اضافہ متوقع ۔
پنشنرز: پنشن میں 15% اضافہ ہوگا ۔
3. ترقیاتی اخراجات (PSDP) اور معاشی ہدف
PSDP کا ہدف: ترقیاتی بجٹ 1 کھرب روپے تک بڑھانے کا منصوبہ، جس کے لیے پیٹرولیم لیوی 78 روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ کی جا سکتی ہے ۔
معاشی نمو: GDP نمو کا ہدف 3.6% مقرر، جبکہ موجودہ سال میں یہ 2.68% رہنے کا تخمینہ ہے ۔
مہنگائی: اگلے مالی سال میں افراط زر 6.29% تک پہنچنے کا خدشہ ۔
تنقید اور چیلنجز
ترقیاتی منصوبوں کی بندش: PSDP میں 16% کمی کے باعث 200 سے زائد ترقیاتی منصوبے معطل ہو سکتے ہیں ۔
عدالتی چیلنج: سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ٹیکس کے نام پر عوام پر بوجھ ڈالنے کی پالیسی پر سوالات اٹھائے تھے، جو نئے بجٹ کے لیے بھی خطرہ ہیں ۔
آئی ایم ایف کی شرائط: سرکلر قرضہ کے حل اور توانائی شعبے کی اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں 1 ارب ڈالر کی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔
ماہرین کی رائے
صنعت کاروں کا موقف: کمرشل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر زبیر چھاگلہ کا کہنا ہے کہ “ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے”۔
معاشی تجزیہ کار: ڈاؤ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عرفان احمد نے خبردار کیا کہ “پیٹرولیم لیوی میں اضافہ مہنگائی کو ہوا دے گا، جس سے عوامی احتجاج کی لہر اٹھ سکتی ہے”۔
حکومتی موقف
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ “یہ بجٹ عوامی فلاح، ٹیکس کے انصاف، اور معاشی استحکام کے تناظر میں تیار کیا گیا ہے”۔ انہوں نے یقین دلایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جلد مکمل کر لیے جائیں گے، اور بجٹ میں غریب طبقات کے لیے ریلیف پیکیجز شامل ہوں گے۔
نوٹ: بجٹ کی حتمی تفصیلات 10 جون کو وزیر خزانہ کی قومی اسمبلی میں تقریر کے بعد واضح ہوں گی۔