تعارف
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو فرد کی اصلاح سے لے کر معاشرتی نظم و ضبط تک ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں سورة الحجرات ایک ایسی جامع سورۃ ہے جس میں اسلامی معاشرت کے اصول، اخلاقی اقدار، اور سماجی ذمہ داریوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورۃ مدنی ہے اور مسلمانوں کو ایک مثالی معاشرہ بنانے کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔
ہم اگر سورة الحجرات کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرد کا کردار، اس کا رویہ دوسروں کے ساتھ، معاشرے میں عدل و انصاف، عزت نفس کا احترام، اور فتنہ و فساد سے بچاؤ جیسے اہم موضوعات اس میں شامل ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم سورة الحجرات کی روشنی میں معاشرتی ذمہ داریوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
1. قیادت و اطاعت کا اصول
آیت 1 تا 5 میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند نہ کریں اور ان کے فیصلوں سے آگے نہ بڑھیں:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ…”
(الحجرات:1)
یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ایک مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر مکمل اعتماد رکھنا چاہیے اور اپنے خیالات یا رائے کو ان کے حکم پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ معاشرتی سطح پر یہ اصول اطاعت، نظم و ضبط، اور قیادت کے احترام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
2. خبر کی تصدیق (تحقیق اور ذمہ داری)
آیت 6 ایک نہایت اہم معاشرتی ہدایت دیتی ہے:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا…”
اگر کوئی فاسق شخص کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو۔ یہ اصول آج کے دور میں بھی مکمل طور پر قابلِ عمل ہے، خاص طور پر جب سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں، بہتان اور افواہیں تیزی سے پھیلتی ہیں۔
یہ آیت ہمیں معاشرتی ذمہ داری دیتی ہے کہ ہم بغیر تحقیق کے کسی بھی بات کو آگے نہ پھیلائیں، کیونکہ اس سے کسی کی عزت، معاشرتی امن، اور اخوت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
3. مصالحت اور امن کا قیام
آیت 9–10 میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے:
“وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا…”
جب دو مسلمانوں کے گروہ آپس میں لڑیں، تو ان کے درمیان صلح کرو۔ اور اگر کوئی گروہ ظلم پر اتر آئے تو اس کے خلاف کھڑے ہو جاؤ، یہاں تک کہ وہ عدل کی طرف لوٹ آئے۔
یہ ہدایت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم صرف تماشائی نہ بنیں بلکہ معاشرتی انصاف اور صلح جوئی میں فعال کردار ادا کریں۔ آج کے معاشرے میں جب چھوٹے چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ آیت نہایت بصیرت افروز ہے۔
4. مذاق، طعنہ زنی اور بدگمانی سے اجتناب
آیت 11–12 میں مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ:
– ایک دوسرے کا مذاق نہ اُڑاؤ
– ایک دوسرے پر طعنہ نہ دو
– الزام تراشی نہ کرو
– غیبت سے بچو
– بدگمانی نہ کرو
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ…”
“وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ…”
“اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ…”
یہ تمام ہدایات معاشرے کو امن، بھائی چارے، اور عزت نفس کے احترام کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر کردار کشی، مذاق، اور طنزیہ تبصرے روزمرہ معمول بن چکے ہیں۔ اگر ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد سے پاک ہو سکتا ہے۔
5. بھائی چارہ اور اخوت
آیت 10:
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ…”
(بے شک تمام مؤمن بھائی بھائی ہیں)
اسلامی معاشرے کی بنیاد اخوت (بھائی چارے) پر رکھی گئی ہے۔ اس اخوت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں، اور کبھی ظلم یا زیادتی کے خاموش تماشائی نہ بنیں۔
6. تقویٰ اور عدل پر مبنی رویہ
سورة الحجرات میں بار بار تقویٰ (اللہ کا خوف) اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ تقویٰ ہی وہ معیار ہے جو معاشرتی رویے کو سنوار سکتا ہے۔
“إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ…”
(آیت 13)
معاشرے میں کسی کی عزت و عظمت کا معیار مال، نسل یا زبان نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔
7. نسلی و لسانی امتیاز کی نفی
آیت 13 میں فرمایا گیا:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا…”
(اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو)
یہ آیت انسانی برابری کا اعلان ہے۔ اسلام رنگ، نسل، قوم، زبان، یا خاندان کی بنیاد پر کسی برتری کو تسلیم نہیں کرتا۔ معاشرے میں اگر ہم اس اصول کو اپنائیں تو تعصب، لسانی منافرت اور طبقاتی فرق مٹ سکتا ہے۔
8. ایمان اور اسلام کا فرق
آیات 14–18 میں اللہ تعالیٰ ایمان اور اسلام کے فرق کو واضح کرتے ہیں:
“قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا…”
یعنی صرف زبانی کلمہ پڑھ لینے سے ایمان مکمل نہیں ہوتا، بلکہ سچا ایمان دل سے یقین، اطاعت اور اعمالِ صالح کے ساتھ ہوتا ہے۔ معاشرے کے لیے یہ تعلیم نہایت اہم ہے کہ صرف دعوے کافی نہیں، بلکہ عملی کردار ضروری ہے۔
9. عملی معاشرتی رہنمائی
سورة الحجرات کی تعلیمات نہ صرف فرد کی اصلاح کرتی ہیں بلکہ ایک اجتماعی، پرامن اور مضبوط معاشرہ تشکیل دینے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم ان احکام پر عمل کریں:
غیر ضروری شکوک و شبہات ختم ہوں گے
غیبت، بدگمانی، الزام تراشی جیسی برائیاں ختم ہوں گی
عدل و مساوات پر مبنی رویہ فروغ پائے گا
بھائی چارہ، ہمدردی اور صلح پسندی بڑھے گی
نتیجہ
سورة الحجرات ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی منشور ہے جو ایک اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لیے لازمی ہے۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں—جیسے بدگمانی، تہمت، لسانی تعصب، طبقاتی فرق، اور معاشرتی انتشار—ان سب کا حل اللہ تعالیٰ نے اس ایک سورۃ میں پیش کر دیا ہے۔
اگر ہم اپنے رویوں، تعلقات اور اجتماعی طرزِ عمل کو سورة الحجرات کے اصولوں کے مطابق ڈھال لیں تو نہ صرف ایک پرامن، متحد اور باوقار معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے بلکہ دنیا و آخرت دونوں میں فلاح حاصل کی جا سکتی ہے۔