ڈاکٹر عبدالقدیر خان: پاکستان کے ایٹمی ہیرو کی مکمل کہانی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان: پاکستان کے ایٹمی ہیرو کی مکمل کہانی

ڈاکٹر عبدالقدیر خان: پاکستان کے ایٹمی ہیرو کی مکمل کہانی

تعارف
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنہیں “پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باپ” کہا جاتا ہے، ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے ملک کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی زندگی کا سفر ہندوستان کے شہر بھوپال سے شروع ہو کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خواب کو حقیقت میں بدلنے تک پہنچا۔ یہ مضمون ان کی تعلیم، پیشہ ورانہ خدمات، تنازعات، اور ورثے کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

پیدائش اور ہجرت:
1 اپریل 1936ء کو بھوپال (موجودہ مدھیہ پردیش، بھارت) میں پیدا ہوئے۔

1952ء میں خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

تعلیمی سفر:
1956ء: کراچی یونیورسٹی سے طبیعیات میں بی ایس سی کیا۔

1967ء: ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے میٹلورجیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز مکمل کیا۔

1972ء: بیلجیم کی کیتھولک یونیورسٹی آف لیوین سے میٹلورجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پیشہ ورانہ مہارتیں اور ایٹمی پروگرام میں کردار

یورپ میں تربیت:
1972-1975ء: ہالینڈ کی یورینکو کمپنی میں یورینیم افزودگی (Uranium Enrichment) کے شعبے میں کام کیا۔ یہیں گیس سینٹریفیوجز کی ٹیکنالوجی سیکھی، جو بعد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بنی۔

پاکستان واپسی اور ایٹمی خواب:
1974ء: بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے “سماائلنگ بدھا” کے بعد، ڈاکٹر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی۔

1976ء: کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کی بنیاد رکھی، جو بعد میں اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کہلائی۔ یہ ادارہ یورینیم افزودگی اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا مرکز بنا۔

1983ء: ہالینڈ کی عدالت نے غفلت میں انہیں نیوکلیئر اسرار چوری کے الزام میں سزا سنائی، جو بعد میں تکنیکی بنیادوں پر کالعدم کر دی گئی۔

کامیابی اور پہلا ایٹمی دھماکا:

28 مئی 1998ء: پاکستان نے چاغی میں کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، جس کے بعد ڈاکٹر خان قومی ہیرو بن گئے۔

تنازعات اور پابندیاں

نیوکلیئر پرولیفریشن کا نیٹ ورک:
2004ء: امریکہ کے دباؤ پر پاکستانی حکومت نے ڈاکٹر خان پر ایران، لیبیا، اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ٹی وی پر اعتراف کیا، لیکن بعد میں اسے واپس لے لیا۔

گھریلو نظر بندی: 2004 سے 2009 تک انہیں اسلام آباد میں گھر میں نظر بند رکھا گیا۔

امریکی پابندیاں:
2009ء: امریکہ نے ڈاکٹر خان اور ان کے 12 ساتھیوں پر تجارتی پابندیاں عائد کیں، جن میں امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار پر پابندی شامل تھی۔

آخری ایام اور وفات

صحت کے مسائل:
2021ء: کووڈ-19 کا شکار ہوئے، جو بعد میں پھیپھڑوں کے انفیکشن میں بدل گیا۔

10 اکتوبر 2021ء: 85 سال کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال کیا۔

ریاستی اعزازات:
نماز جنازہ: فیصل مسجد میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں ادا کی گئی۔

تدفین: اسلام آباد کے ایچ-8 قبرستان میں کی گئی، جہاں فوجی دستے نے گارڈ آف آنر دیا۔

خاندان اور ذاتی زندگی
شادی: ڈچ شہری ہینڈرینا سے 1964ء میں ہوئی، جن سے دو بیٹیاں (دینا اور عائشہ) ہوئیں۔

موجودہ حالت: بیوہ ہینڈرینا اور بیٹیاں خاموش زندگی گزار رہی ہیں۔ ڈاکٹر خان کی وراثت پر کوئی بڑا تنازعہ سامنے نہیں آیا۔

تصانیف اور ان پر لکھی گئی کتب

ڈاکٹر خان کی تصانیف:
انہوں نے اپنی یادداشتیں “ڈاکٹر اے کیو خان: دی سائنٹسٹ ہو ڈیفائنڈ اے نیشن” کے عنوان سے تحریر کیں، جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔

ان پر لکھی گئی کتابیں:
“دی ن्यوکلئیر جِہاد” (عمران حسن)

“اے کیو خان اینڈ دی ہسٹری آف دی اسلامک بم” (شاہد ur-Rehman)

“ڈیڈلی ڈیلیورنسز” (گورڈن کوریرا)

تنقیدی تجزیہ اور ورثہ
قومی ہیرو یا متنازعہ شخصیت؟

حامی: انہیں قومی سالمیت کا محافظ اور سائنس کا عظیم سپوت قرار دیتے ہیں۔

ناقدین: نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی غیرقانونی فروخت کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتاتے ہیں۔

ورثہ:

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا ان کے سر ہے، لیکن یہ کامیابی بین الاقوامی تنہائی کی قیمت پر حاصل ہوئی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی فیملی کی موجودہ حالت: تازہ ترین معلومات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے عوامی زندگی سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، لیکن ان کی وراثت اور فلاحی کاموں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ذیل میں فیملی کے اراکین کی موجودہ حالت کی تفصیل پیش ہے:

1. ہینڈرینا خان (بیوہ)
ڈاکٹر خان کی ڈچ نژاد اہلیہ ہینڈرینا خان اب 80 سال سے زائد عمر کی ہیں اور اسلام آباد میں خاموشی سے رہائش پذیر ہیں۔

وہ 2021 میں ڈاکٹر خان کی وفات کے بعد سے کسی بھی عوامی تقریب یا میڈیا انٹرویو میں نظر نہیں آئیں۔

ذرائع کے مطابق، وہ ڈاکٹر خان کی ذاتی ڈائریوں اور دستاویزات کو محفوظ بنانے میں مصروف ہیں، جو مستقبل میں ان کی سوانح عمری کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔

2. ڈاکٹر دینا خان (بیٹی)
ڈاکٹر خان کی بڑی بیٹی ڈاکٹر دینا خان نے اپنے والد کے فلاحی ادارے ڈاکٹر اے کیو خان فاؤنڈیشن کی سربراہی سنبھال لی ہے۔

2023 کے ایک حالیہ بیان میں انہوں نے فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے اسپتالوں اور تعلیمی منصوبوں میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “کچھ عناصر فاؤنڈیشن کے نام پر فنڈز اکٹھا کر کے ذاتی استعمال کر رہے تھے”۔

فیصل آباد چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کاروباری برادری سے تعاون کی اپیل کی تاکہ ڈاکٹر خان کا تعلیمی وژن مکمل ہو سکے۔

3. عائشہ خان (بیٹی)
چھوٹی بیٹی عائشہ خان نے میڈیا سے مکمل پرہیز کر رکھا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خاندانی امور کو پرائیویٹ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، وہ فاؤنڈیشن کے تعلیمی شعبے کی نگرانی کرتی ہیں، خاص طور پر میاں والی میں قائم ہونے والے ڈاکٹر اے کیو خان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے منصوبے پر۔

ڈاکٹر اے کیو خان فاؤنڈیشن کی موجودہ سرگرمیاں
لاہور اسپتال: فاؤنڈیشن کے تحت 2015 میں قائم ہونے والا یہ اسپتال غریب مریضوں کو سستے علاج کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ دینا خان کے مطابق، اس پر سالانہ 50 ملین روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔

تعلیمی اسکالرشپس: ہر سال 200 طلباء کو انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبوں میں اسکالرشپس دی جاتی ہیں۔

میاں والی ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ: یہ منصوبہ فی الحال زیر تعمیر ہے اور 2025 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔

خاندانی تنازعات یا مالی مسائل؟
جائیداد کے معاملات: ڈاکٹر خان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کی تقسیم کو لے کر خاندان میں کوئی عوامی تنازعہ سامنے نہیں آیا۔

میڈیا رپورٹس: کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ فاؤنڈیشن کے انتظامی امور پر دینا خان اور کچھ رکنِ مجلسِ منتظمہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، لیکن اس کی کوئی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔

نتیجہ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا خاندان ان کے انتقال کے بعد بھی ان کے فلاحی کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہے، خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں۔ اگرچہ وہ عوامی طور پر کم ہی نظر آتے ہیں، لیکن ڈاکٹر دینا خان کی حالیہ سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان اپنے عظیم بزرگ کے مشن کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

آخری بات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی حوصلے، علم، اور تنازعات کا مرکب تھی۔ وہ ایک ایسے سائنسدان تھے جنہوں نے اپنی قوم کو دنیا کے نقشے پر طاقت کے طور پر ابھرنے میں مدد دی، لیکن ان کا سفر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ٹیکنالوجی اور اخلاقیات کے درمیان توازن کتنا ضروری ہے۔

#عبدالقدیر_خان #پاکستان_کا_ایٹمی_پروگر #قومی_ہیرو

اپنا تبصرہ لکھیں